Mchoudhary

Add To collaction

کبھی روگ نہ لگانا پیار کا (session1)بقلم ملیحہ چودھری

                               قسط8   

                     ~~~•~~~•~~~
            🌺*"ا چھی صورت کی اک لڑکی۔
                    سنبھل سنبھل کے چلتی 
                  نئے رستوں سے جو وہ گزرے
                      دیکھ بھال کے چلتی ہے
                  دکھ سہنا عادت ہے اس کی
                       دنیا سے بھی ڈرتی 
                  چھپ چھپ کے وہ روتی 
              خواہشیں معصوم سی اس کی 
                  شرم و حیا کی پتلی  ہے "**🌺
ملیحہ چودھری
آپی میں جا رہی ہوں " بہت دیر ہو گئی"وہ جلدی جلدی  میں نور سے بولی...ارے ناشتا تو کر لو..نور نے کہا... نہیں آپی.....!!اگر میں ناشتا کرنے بیٹھ  گئی تو یہیں پر پورا دن گزر جائےگا ...بس اب کچھ نہیں...وہ ڈائننگ روم سے باہر نکلتی ہوئی بولی..کچھ یاد آنے پر پیچھے مڑ کرہانکالگائی.جب تک میں یونیورسٹی سے واپس نہ آ جاؤں. جائے گا مت....!! ٹھیک ہے گڑیا...!! وہ یہ بول کر باہر پورچ میں آ گئی تھی جہاں عالیان اُسکا انتظار کر رہا تھا..اسنے گاڑی میں بیٹھ کر عالیان پر حکم صادر کیا چلو...جو حکم میرے آقا....! عالیان نے ایک ادا سے سر کو خم کرتے ہوئے کہا.... عالیان تمہیں نہ فلم انڈسٹریز میں ہونا چاہیےتھا...کیونکہ تم ایکٹنگ بہت زبردست کرتے ہو...وہ بھی نوکر والی .ایک دو رول تو تمہیں میری دعاؤں سے  وہ نوکر کا دے ہی دینگے.. وہ اب اُسکا مذاق بناتے ہوئے بولی.ہاہاہا..ٹھیک ہیں..!" ہم تو آپکی دعاؤں سے یہ بھی کرنے کو تیار ہیں.. بس تمہارا ساتھ ہونا چاہیے وہ ایک جذب سے اسکو دیکھتے ہوئے گویا ہوا......جو کہ مائشا کے سر سے گزری تھی۔ویسے مایو... اب وہ گاڑی حویلی سے باہر نکل چکا تھا..وہ گاڑی روڈ پر دوڑآتا ہوا بولا... مایو ایک بات تو بتاؤ "تم اسٹڈی کمپلیٹ کرنے کِ بعد کیا کروگی.....اب وہ سنجیدہ تھا ...م میں نہ بابا کا ادھورا خواب پورا کروں گی..وہ چاہتے تھے کہ میں بڑے پاپا ڈھونڈ کر دادو کِ پاس لاؤں لیکن اللہ نے بابا کو تو اتنی محلّت نہیں دی " پر اگر اللہ نے چاہا تو انشاءاللہ بابا کا ادھورا خواب میں پورا کروں گی۔۔وہ ایک  عزم سے بول رہی تھی.. بابا کے ذکر پر اُسکی آنکھیں نم ہو گئی."مائشا تمہیں جو کرنا ہے کرو "میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں..اسنے یہ بولتے ہوئے مائشا کے شولڈر پر ہاتھ رکھ دیا"لیکن یہ مائشا کو ناگوار گزرا تھا.. مانا کِ وہ اسکا جان سے پیارا دوست  اور  تایا کا بیٹا تھا..."جس نے اسکا ہر قدم پر ساتھ دیا ..لیکن تھا تو وہ بھی اُسکے لیے ایک غیر محرم ہی....اسنے اُسکے ہاتھ کِ طرف دیکھا اور پھر عالیان کے چہرے کے طرف... اسکا ہاتھ اپنے شولڈر سے ہٹاتی ہوئی عالیان سے گویا ہوئی... عالیان معاف کرنا لیکن مجھے اپنے آپ کو کسی کا چھونا اچھا نہیں لگتا "تم ہی سوچو ہمارے مذہب یہ اجازت دیتا ہے ..؟نہیں نہ میں تمہاری کتنی بھی عزیز ہوں یا تم مجھے لیکن ہوں تو پھر بھی میں تمہارے لیے ایک غیر محرم ہی نہ....وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ چھوٹی سی لڑکی جو محض سترہ سال کی ہی تھی...وہ ایسی بھی باتیں کر سکتی ہیں"اور اسنے کہا بھی تو کچھ غلط نہیں....بس وہ اُسکے چہرے کو تکتا رہا....اب چلو و و۔۔ وہ بولی... ہاں ہاں..!!! اسنے اب گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی " اور جن سے بھگا لے گیا "
گاڑی یونیورسٹی کِ گیٹ پر رُکی۔۔۔۔اللّٰہ حافظ مائشا نے گاڑی سے نکلتے ہوئے عالیان کو بولا۔۔۔اور  اُسکی طرف دیکھے بنہ یونیورسٹی کے اندر چلی گئی۔۔۔"وہ جب اندر گئی تو رامین اُسکا بے صبری سے اندر گراؤنڈ میں انتظار کر رہی تھی۔۔"السلام وعلیکم.....! رامین نے چہکتے ہوئے اسکو سلام کی تھی..... وعلیکم السلام.......! کیسے طبیعت ہے اب  رامین نے پوچھا.... الحمدللہ...!جواب ملا... کیا ہوا اتنی ایسیٹ کیوں ہو____؟ رامین نے تشویش سے مائشا پوچھا....کچھ بھی نہیں آؤ کلاس میں چلتے ہیں..مائشا رامین کی کلائی پکڑ کر اندر کِ طرف جانے لگی تھی۔۔جب رامین اپنا ہاتھ چھڑاتی ہوئی بولی ۔۔نہیں کچھ تو بات ہے___؟ اس لیے یہاں بیٹھوں اور شرافت سے بتاؤ کیا ہوا ہیں _؟"وہ اسکو بینچ کِ طرف بیٹھ نے کا اشارہ کرتی ہوئی بولی۔۔۔کیا یار....؟ مائشا نے ناراضگی بھری نظر اس اور ڈالی اور بینچ پر جا کر بیٹھ گئی"کیونکہ رامین مجتبٰی جب تک اسکو نہیں چھوڑنے والی تھی جب تک وہ اسکو سب کچھ نہ بتا دیں....."اوہ مائی گوڈ" یار م تم نے عالیان بھائی کو اتنی سی بات پر اتنے لمبے لمبے لیکچر سنا دیئے...یار وہ تمہیں اپنا تحفظ فراہم ہی تو کے رہے تھیں"رامین نے اپنا سر ہی تو پکڑ لیا تھا..." اور میں کیا کرتی "اور مجھے نہیں پسند کوئی غیر محرم مجھے چھوئے...مجھے چھونے کا حق صرف اور صرف میرے محرم کو ہیں...میں مانتی ہوں رامین عالیان میرا سب سے اچھا دوست ہیں "لیکن اس سے پہلے میرے لیے میرا مذہب میرے "نبی کریم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلّم "کا بتایا ہوا راستہ اور اللہ ہیں۔۔۔تمہیں پتہ ہے اگر غیر محرم اگر ہمارے سر کے بال بھی دیکھ لے تو ہم پر غسل واجب ہو جاتا ہے"اور پھر یہ تو اسنے میری باڈی کو ٹچ کیا تھا...اور مجھے ہرگز نہیں پسند کی کوئی میری طرف دیکھے بھی..چھونے کِ تو دور کی بات...... اسکو غصّہ ہی تو آ گیا تھا رامین کا "اتنی بڑی بات کو اتنی سی بات کہنا" اور اُسکی بات کو کسی نے بہت غور سے سنی تھی"اچّھا میری ماں نہیں کہتی کچھ بھی...!بس اب چل کلاس میں میرا تیرا لیکچر سننے کا کوئی ارادہ نہیں ہے وہ تو سر زاخر کا لیکچر ہی سن لوں وہیں کا فی ہے۔۔۔وہ دونوں سیکنڈ یئر کِ سٹوڈینٹ تھی ۔۔ ہاں چل وہ دونوں وہاں سے کلاس میں چلی گئی....
                *********************
بلیک رنگ کی بڑی سی گاڑی آکسفورڈ یونیورسٹی کے سامنے رکی" اس کار کا گیٹ کھلا ... کار میں سے اترنے والی شخصیت اور کوئی نہیں ms ( منہال سلمان شاہ) تھا ... بلیک جینز پر وائٹ ٹ - شرٹ پہنے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے۔۔ وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا... اُسکی نیلی کانچ سی آنکھوں میں ایک الگ ہی چمک تھی" جیسے کسی چیز کو پالینے کی ہوتی ہے..."وہ اپنی مغرور چال چلتا ہوا یونیورسٹی کے اندر گیا .." جب اس نے اپنے قدم یونیورسٹی کے اندر رکھے تو اُسکی زندگی کا ایک ایک پل فلم کی طرح اُسکی آنکھوں کے سامنے چلنے لگا تھا" اس یونیورسٹی سے اُسے دکھ ہی دکھ ملے تھیں" وہ گھبرانے لگا تھا " اس اریا سے ہی " لیکن آج " آج وہ نہ تو گھبرا رہا تھا اور نہ اسکو اپنا ماضی یاد آ رہا تھا...
وہ چلتا ہوا گراؤنڈ اریا میں آ گیا "  اس نے ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں " اُسکی نظر سامنے ٹھہر سی گئی.. آج اتفاق سے وہ بھی اُسکے ہم رنگ ہی کپڑے پہنے ہوئی تھی" بلیک گھیر دار فراک اور وائٹ حجاب میں وہ پر نور چمکتا چہرا " وہ آسمان سے اُتری معصوم سی پری لگ رہی تھی" شائد وہ کسی سے باتوں میں مشغول تھی.. خود بخود اُسکے قدم اُن دونوں کِ طرف بڑھے "وہ کچھ دوری پر کھڑا ہو گیا" جہاں سے اُسکی آواز بخوبی سن سکتا تھا.. اور جو اسنے سنا وہ اُسکے دل دھڑکنے پر مجبور کر گیا" وہ سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ یہ لڑکی سچ میں اللّٰہ کی کوئی بہت ہی عظیم نعمت ہے" واقع میں یہ بہت پاکیزہ تھی" ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ اُسکے دل کو اپنی مٹھی میں کر رہی تھی" کوئین آف دا ہارٹ " منہال کے لب ہلے اور اسکو نیا نام دے گئے"" یہ سچ ہی تھا وہ اسکے لیے ہارٹ وچّ سے کم بھی تو نہیں تھی ...سر پیچھے سے اُسکی سیکرٹری نے اُسکو پکارا" اسنے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں اُسکی سیکرٹری اسکو آواز دے رہی تھی" اور پھر وہ اپنی شوٹنگ کے لیے چلا گیا....
               ********************
مائشا اور رامین دونوں سر عبّاس کا لیکچر لے کر لائبریری میں جا رہی تھی" جب انہیں شور سنائی دیا...یہ کیا ہو رہا ہے... رامین مائشا کِ طرف دیکھتے ہوئے بولی.. مجھے کیا پتہ___؟ مائشا نے اُسے دیکھ کر کندھے اُچکائے.." میں نے تُجھ سے تھوڑی پوچھا میں تو" جو بھی ہیں چل دیکھتے ہے کیا ہو رہا ہے شور تو لائبریری کے پیچھے گراؤنڈ سے آ رہا ہے.... مائشا نے اُسکی بات کو درمیان میں کاٹتے ہوئے رامین کو چلنے کا کہا تھا" ہاں چل دیکھتے ہے...اسنے بھی اُسکی ہاں میں ہاں ملائی" وہ دونوں جب لائبریری کے پیچھے گراؤنڈ میں پہنچی وہاں پر بہت زیادہ رش تھا" یار یہاں تو بہت رش ہیں" چل واپس چلتے ہے" مائشا کو بھیڑ میں بہت گھبراہٹ ہوتی تھی اس لیے وہ  گھبراتے ہوئے رامین سے بولی" چل نہ کچھ نہیں ہوگا" دیکھتے یہاں پر اتنا رش کیوں ہے__؟ رامین اسکا ہاتھ پکڑ کر بھیڑ کو چیرتی ہوئی آخر تھوڑی کھلی سی جگہ پر پہونچ ہی گئی تھی" يا اللّٰہ ہ ہ ہ ہ ہ .......! رامین چیختی چلاتی ہوئی بولی... کیا ہوا_؟ مائشا نے گھبراتے ہوئے پوچھا___! ارے پگلی یہ پوچھ کیا نہیں ہوا.....! ہیں ں ں .... وہ دیکھ سامنے ms ( منہال سلمان شاہ ) کنگ آف دا فلم انڈسٹریز.......مائشا نے اُسکے تعاقب میں دیکھا" جہاں منہال تھا " ہاں یہ وہی تھا.... جس سے کل رات اُسکی ملاقات ہوئی تھی وہ بھی ایک ناقابلِ برداشت ملاقات... بقول مائشا کے" ورنہ اُسکی جگہ اور کوئی لڑکی ہوتی تو وہ اپنے آپ پر رشک کرتی.. تو تم اتنی چلّا کیوں رہی ہو__؟ ہیں تو یہ انسان ہی نہ کوئی فرشتہ تو نہیں ..... وہ ناگواری سے اسکو دیکھتے ہوئے گویا ہوئی... یار کیا چیز ہو تم.... مطلب ہر چیز سے تمہیں پروبلم ہے۔۔تمہیں پتہ ہے یہ کون ہے...؟ یہ " یہ کنگ آف دا فلم انڈسٹریز " منہال سلمان شاہ ..! وہ خوش ہوتے ہوئے بولی..... ہاں تو میں کیا کروں ....... دفع ہو تمہیں تو کسی سے مطلب ہوتا ہی نہیں.... لیکن مجھے مطلب ہے میں تو روز اللّٰہ جی سے دعا مانگتی ہوں ایک بار صرف ایک بار میری ملاقات ہو جائے ورنہ ہم جیسے کو کہاں میسّر ہوتی ہے ایسے لوگوں سے ملاقاتیں کہاں یہ کہا ہم...وہ ایک لمبی سانس خیچتی ہوئی بولی... اوہ میڈم مجھے تو تم اپنے میں ملاؤ ہی مت ... مجھے کوئی شوق نہیں ایسے لوگوں سے ملنے کا... اور " کائنڈ یور انفارمیشن".. میں ان سے مل چکی ہوں.. کیا ا ا ا ا..........؟ وہ چلّائی اُسکے ایسے چلّانے پر آس پاس کے لوگ اُن دونوں کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے..... کچھ تو لحاظ کرو .. ؟ تم اپنے گھر میں نہیں ہو " یہ گراؤنڈ ہے " اور وہ بھی پبلیک سے بھرا ہوا.... سوری سوری.... لیکن تم کب ملی اور مجھے بتایا بھی نہیں "بہت کمینی ہو... رامین منہ پھلاتے بولی... چلو اچھا ہے کم سے کم تونے میری تعریف تو کی" ورنہ مجھے تو لگنے لگا تھا کہ میں تمہارے منہ سے اپنی تعریف  سنے بغیر ہی اللّٰہ کو پیاری ہو جاؤں گی...مائشا....! وہ چلّا اٹھی.. اب کی بار اُسکی آواز بہت اونچی تھی۔۔۔منہال جو ایک سین کا شوٹ کر رہا تھا.. اس نے مائشا کا نام سنا تو پلٹ کر دیکھا... وہ دونوں اس سے کچھ ہی فاصلے پر کھڑی تھی... شوٹنگ کے دوران بلکل بھی شور نہیں تھا تو وہ بخوبی اُسکی آواز سن پایا تھا.. ورنہ اتنے رش میں کہا کس کو سنائی دیتا ہے۔۔۔ اور پھر وہ دیکھتا ہی رہا.... اسکو کچھ بھی یاد نہ تھا وہ کیا کر رہا ہے کہاں پر ہے" اگر اسکو کچھ یاد تھا تو صرف اتنا یاد تھا کہ مائشا اُسکے سامنے ہے..... اور وہ صرف اسکو دیکھنا چاہتا ہے۔۔۔۔ہوس تو اُسے جب آیا" تب اوپر سے اس فلم کی ہیروئن نیچے آکر گری دھڑام م م م ......... کوئی ہنس رہا تھا تو کوئی ہیروئن کو اٹھنے میں اُسکی ہیلپ کر رہا تھا..... ہاہاہاہا....... ہی ہی ہی ہی ....... اور رامین صاحبہ کے تو دانت ہی اندر کو نہیں جا رہے تھیں..
بند کرو اپنے دانت نکالنے دیکھا نہیں کتنی چوٹ لگی ہیں انکو .. مائشا نے اسکو لتاڑا" یار دیکھ کتنا فنی ہیں۔۔رامین ایسے نہیں ہنستے... گندی بات اللّٰہ کو ناگوار گزرتا ہے جو کسی کی بےبسی پر ہنستا ہے۔۔۔۔وہ تورنت ہیروئن کے پاس گیا.. سو سوری ..!  آئی ایم ریالی ریالی سوری.. وہ (فلم کی  ہیروئن)" ردا حسین" کِ ہیلپ کرنے لگا تھا جب اس نے ہاتھ کو جھٹکتے ہوئے خود کھڑی ہو گئی تھی.. کیونکہ اتنی بڑی ہیروئن کی اتنی پبلک کے درمیان یوں گرنا اُسکے لیے انسلٹ سے کم نہیں تھا.. وہ دیکھ چکی تھی منہال کا دھیان کہاں پر ہے" لیکن پھر یہ سوچ کر اپنی سوچ کو جھٹک دیا کہ ms جیسا ہیرو کہاں معمولی سی لڑکی کو دیکھے گا... اور اپنا شوٹ کنٹینوں رکھا " لیکن اُسے نہیں پتہ تھا کہ وہ اتنی پبلک کے بیچ اتنی انسلٹ ہوگی... اب ردا حسین کو لگ رہا تھا.. یہ سب اس لڑکی( یعنی مائشا ) کی وجہ سے ہوا ہے... ردا ایک نفرت بھری نظر ڈال کر وہاں سے چلی گئی..منہال تو یہ سوچتا ہی رہ گیا آخر یہ کیا تھا۔۔۔۔۔اس بات سے بے خبر اُسکی وجہ سے ایک شخص کِ زندگی کا مذاق بننے والا ہیں....
             ********************
ماضی.........
ٹک ٹک ٹک....... اس نے دروازہ نوک کیا.... کم آن ...!اجازت ملی وہ دروازہ کھول کر اندر چلا گیا... جہاں پر شاہنواز راجپوت چیئر پر برجمان تھیں... السلام وعلیکم انکل..! اسنے سر جھکائے  سلام کی.." وعلیکم السلام بیٹا اُنہونے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔۔وہ ایک طرف صوفے پر جا کر بیٹھ گیا وہ آ تو گیا تھا " لیکن اب  یہ سمجھ نہیں رہا تھا کہ بات شروع کہاں سے کرے ... وہ اپنی زبان کو لفظوں کی لڑی بنانے کی کوشش کر رہا تھا جب شاہنواز انکل بولے... کچھ کہنا تھا بیٹا آپکو.... ج جی انکل...... وہ ڈرتے ڈرتے بولا...! تو شروع کرے میں سن رہا ہوں.... سلمان شاہ اُنکے قدموں میں آ کر بیٹھ گیا اور انکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر بولا.... انکل مجھے نہیں پتہ جو بات میں آپ سے کرنے والا ہوں وہ آپکو ناگوار گزرے یا نہیں آپکا ردِ عمل کیسا ہوگا.....؟ لیکن انکل میں پھر بھی آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں... مجھے زیادہ گھما پھرا کر بات کرنی نہیں آتی اسلئے میں سیدھے سیدھے لفظوں میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں.... وہ ایک منٹ رکا اور پھر بولا...." انکل میرا ماضی میرا بچپن سب آپکے آنکھوں کے سامنے گزرا ہے" کوئی بھی چیز میری آپکی نظروں سے اوجھل نہیں رہی.... اسنے شاہنواز راجپوت کِ طرف دیکھا..." انکل م میں عائشہ کا ہاتھ اپنے لیے مانگنا چاہتا ہوں .... آخر اسنے بول ہی دیا تھا... اسنے پھر سے شاہنواز راجپوت کِ طرف دیکھا.... واہ بھئی واہ...... بات یہاں تک پہنچ گئی اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلا ..... جہانگیر پیچھے سے طنز کرتے ہوئے بولا...... اس نے پلٹ کر دیکھا..جہاں جہانگیر کھڑا اسکو گھورنے میں مصروف تھا" و وہ م میں .... ٹھیک ہے "ہم سوچے گے.... وہ بولتا اس سے پہلے عائشہ کے بابا بول پڑے.... ٹھیک ہے..! لیکن انکل اگر آپکو ...نہیں ہمیں اُسکی ضرورت نہیں..... ہم آپکو اچھے سے جانتے ہیں  وہ سلمان کی بات کو سمجھ کر درمیان میں بول پڑے تھیں.... تھینک یو سو مچ انکل ..! وہ اُنکے ہاتھ پر بوسا دے کر وہاں سے چلا گیا تھا... بابا اپنے سلمان کو ہاں کیوں نہیں کی....؟ سلمان کے جاتے ہی جہانگیر نے اپنے بابا سے پوچھا... برخودار ہم اپنی بیٹی سے بات کرنے کے بعد ہی ہاں کہینگے۔۔۔پر بابا اس رشتے سے عائشہ بھی خوش ہوگی " کیونکہ وہ سلمان سے محبّت کرتی ہے" اچّھا....! تو پھر ٹھیک ہیں...! تم سلمان کو بلا کر لاؤ اور اپنی ماما کو بھی .... انھونے جہانگیر کو حُکم دیا... بس ابھی آیا.... وہ یہ بول کر وہاں سے چلا گیا.... تھوڑی دیر میں سب ہی لاؤنج میں موجود تھیں" بابا اب بول بھی دیں اپنے ہم سب کو یہاں پر اکھٹا کیوں کیا ہیں...؟ عائشہ جو اپنے بابا کِ گود میں سر دیے لیٹی تھی وہ گردن تھوڑا اونچا کرتے ہوئے بولی..ارے لڑکی تم مت بولو تھوڑی تو شرم کر لو" جہانگیر نے عائشہ کو چھیڑا .... میں کیوں شرم کروں.. کون سا میری شادی ہو رہی ہے...؟ وہ جب بولی تو بولتی ہی چلی گئی.... کیا پتہ تمہیں بھگانے کا منصوبہ ہی بنایا جا رہا ہو...؟ اسنے پھر اسکو چھیڑا تھا..." بھائی ی ی ی .... وہ اس پر  پاس پڑا ہوا کوشن پھینکا تھا" ہائے رے قسمت ... جہانگیر سائڈ پر ہو گیا لیکن سامنے سے آتے ہووے سلمان کے چہرے پر جا لگا.... ہاہاہاہا.. ہاہاہاہا .. بابا دیکھے اسکو ... دیکھیے اپنے دوست کو سمجھا لے ورنہ یہ میرے ہاتھوں سے نہیں بچے گا" پھر مجھے مت کہنا کہ میں نے آپکے دوست کا قتل کر دیا اب وہ جہانگیر کی شکایت سلمان سے لگا رہی تھی...بس بچّوں بہت ہو گئی مذاق وغیرہ ... میں نے آپ سب کو اس لیے بلایا ہے کہ میں عائشہ کا رستہ طے کر رہا ہوں... عائشہ کا ایک دم دل ڈوب سا گیا تھا..کہاں پر عائشہ کی مما نے  پوچھا...! دیکھو بیگم یہ تو تم اپنے صاحبزادے سے پوچھوں... انھونے سلمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا... سلمان جو چپ بیٹھا تھا" وہ ماما کے پاس آیا اور انکے ہاتھوں۔ پر بوسا دیتے ہوئے بولا مما میں آپکی گڑیا کا ہاتھ ہمیشہ کِ لیے تھامنا چاہتا ہوں کیا آپ خوش ہے...؟ وہ بتاتے ہوئے اُن سے ساتھ ہی ساتھ سوال بھی کے ڈالا.... اور جہانگیر کی مما کی آنکھوں میں تو خوشی سے آنسو ہی آ گئے تھیں.. اُنہونے اُسکے ماتھے کو چومتے ہوئے گردن ہاں میں ہلا دی.." عائشہ تو وہاں سے تب ہی چلی گئی تھی جب اُسکے بابا نے اُسکے رشتے کی بات کِ تھی... اسکو لگا تھا اب وہ سانس لینا بھول جائے گی یہ جانے بغیر اللّٰہ نے اسکو بائیں مانگے ہی اُسکی محبّت اُسکی جھولی میں ڈال دی ہے...انکل جب اپنے رضامندی دے ہی دی ہے تو میں کل ہی نکاح کرنا چاہتا ہوں... لیکن بیٹا اتنی جلدی... ماما کوئی جلدی نہیں مجھے زیادہ کچھ نہیں کرنا صرف نکاح کرکے ساتھ ہی ساتھ رخصتی کروانی ہے... میں زیادہ جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا... ٹھیک ہے بیٹا جیسی تمہاری مرضی... شاہنواز انکل بولے تھیں.. انکل اگر آپکی  اجازت ہو تو میں عائشہ سے مل سکتا ہوں... اس میں پوچھنے والی کیا بات جاؤ مل لو... وہ وہاں سے عائشہ کے روم کِ طرف چلا گیا...
               ********************
ٹک ٹک ٹکا ٹک...... سلمان نے ایک بار نہیں کئی بار دروازہ نوک کیا لیکن وہ ہیں کہ دروازہ کھول نے کام ہی نہیں لے رہی تھی.... عائشہ دروازہ کھولو پریشان ہوتے ہوئے اسنے عائشہ کو آواز دی" کھولو دروازہ ورنہ میں توڑ دوں گا " یہ اللّٰہ کِ حکم سے یہ دھمکی کام آئی اور عائشہ نے دروازہ کھول دیا.. بے ترتیب سا حلیہ کالے گھنے لمبے بال بکھرے ہوئے تھیں موٹی موٹی کانچ سی آنکھیں سوجھی ہوئی تھی جو رونے کا پتہ دے رہی تھی" یہ وہ عائشہ تو نہیں تھی جو ابھی کچھ دیر پہلے تھی" کیا ہوا_؟ سلمان نے تشویش سے عائشہ سے پوچھا. اس نے ایک طرف ہوکر سلمان کو اندر آنے کا راستہ دیا اور خود بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔ میں آپ سے کچھ پوچھ رہا ہوں کیا ہوا__؟ وہ قدرے تیز آواز میں بولا... م میں مر رہی ہوں میری جنازے کی نماز پڑھ لینا" وہ بھی چلائی " یہ کیا بول رہی ہے آپ ہوش بھی ہیں__؟ ہاں ہیں نہ ہوش بہت ہوش ہے بہت زیادہ " اتنا کی پچھلے نو سالوں سے ہوش میں ہی تو تھی لیکن اب " اب میں نہیں رہنا چاہتی ہوش میں میں بہت تھک گئی ہوں ہوش میں رہ رہ کر" اب اور نہیں رہ سکتی... اب مرنا چاہتی ہوں" وہ  روتی ہوئی نیچے بیٹھتی چلی گئی.... عائشہ کیا ہوا __؟ مجھے آپکی کوئی بھی بات نہیں سمجھ آرہی ہے..  ہٹے سامنے سے اور جائے میرے روم سے مجھے نہیں بتانا کچھ بھی نہیں بتانا" عائشہ ا ا ا ا .... وہ اُسے کندھوں سے تھام تے ہوئے  چلّایا.. چُپ بلکل چپ ایک بھی آنسو نہ نکل پائے... وہ ڈانٹنے کے انداز میں بولا" اب بتاؤ کیا ہوا__؟ کیوں روں رہی ہو تم__؟ کوئی پریشانی__؟ ہیں نہ پریشانی..." اور پتہ ہے اس پریشانی کا کیا نام ہے__؟ اس نے آنسوؤں کو پوروں سے چن کر اس سے سوال کیا.... وہ آپ ہے صرف آپ... میں  لیکن کیوں__؟ کیوں وہ زیر لب بڑ بڑائی... کیا آپکو نہیں پتہ....؟ کیا آپکو میری آنکھونیں میں نہیں دیکھتا__؟ کیوں سلمان کیوں مجھے موت کِ سجہ سنا رہے ہو کیوں__؟ آخر میری کیا غلطی ہے __؟ صرف یہی نہ  میں آپ سے محبّت کرتی ہوں ... آپ ہی بتائیں میں نے کبھی آپ سے کچھ مانگا ہے..؟اب وہ سوال کر رہی تھی... سلمان نے نہ میں گردن ہلائی.." تو پھر آپ مجھے کیوں اس گھر سے دور بھیجنا چاہتے ہیں _؟ کیوں_؟ بتائے سلمان "مجھے شروع سے ہی پتہ تھا کہ آپ میرے کبھی نہیں ہو سکتے " لیکن میں جب بھی خود کو آپسے محبّت کرتے نہیں روک پائی میں تو خاموش محبّت کرتی تھی کبھی آپکو ایک نظر بھر کر بھی نہیں دیکھا کیونکہ مجھے پتہ تھا آپ میرے نہیں ہیں " جب میں پہلے سے ہی اپنے دل کو آپکی یادوں کے ساتھ جی رہی تھی تو کیوں ان  یادوں کو بھی مجھ سے آپ چھین نے پر لگے ہیں۔۔۔کیوں بتائے وہ سلمان کے کالر  پکڑتے ہوئے چلّائی.... سلمان سے اُسکی یہ حالات نہیں دیکھی جا رہی تھی تو وہ اسکو یوں ہی روم میں چھوڑ کر چلا گیا.... آدھے گھنٹے بعد وہ قاری صاحب  اور پوری فیملی کے ساتھ موجود تھا ...نکاح کب شروع کب ختم ہوا اسکو پتہ ہی نہیں چلا اگر کچھ پتہ تھا تو اتنا سلمان شاہ نے اس سے اسکا سب کچھ چھین لیا تھا... اُسے نہیں پتہ تھا کہ اسکا نکاح کس کے ساتھ ہوا ہے... اگر کچھ پتہ تھا صرف اتنا اب وہ نہیں جی پائے گی... اُسکی آنکھوں سے لڑیوں کی صورت میں آنسو بہ رہے تھے... اُسکی یہ حالت کسی سے بھی نہیں چھپی تھی لیکن سب یہ سوچ رہے تھیں کی عائشہ بھی ہر لڑکی کی طرح اپنے فیملی سے دور ہونے کِ وجہ سے رو رہی ہیں.....شاہنواز راجپوت نے اپنے جگر کے ٹکڑے  کو سینے سے لگا کر اسکو بہت دعائیں دی اور روم سے باہر چلے گئے.... بیٹا آپ بات کرو میں رخصتی کے لیے تیاری کرتی ہوں۔۔۔عائشہ کی ماما بھی یہ بول کر وہاں سے چلی گئی جہانگیر تو پہلے ہی وہاں سے چلا گیا تھا" روم میں وہ دونوں اور صرف خاموشی تھی.... آشی ....! سلمان نے اسکو پکارا.... لیکن وہ مجسمہ بنی چھت کو گھور رہی تھی.... عائشہ ۔۔۔اس بار سلمان نے اسکو شانوں سے پکڑ کر ہلایا..... ایسا کرنے سے عائشہ کا سکتا ٹوٹا .... جائیں یہاں سے آپ.. وہ چلّائی" اب کیا یہاں تماشا دیکھنے کے لیے کھڑے ہے.. کِ میں مری بھی" وہ کُچھ بولتی سلمان نے اُسکے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا " اور اسکو دیوار سے لگاتے ہوئے بولا" آئندہ اگر اپنے اپنی زبان سے مرنے کی بات لبوں سے ادا کی تو مُجھسے بُرا کوئی نہیں ہوگا... وہ ہر لفظ چبا چبا کر ادا کر رہا تھا... کیوں کیوں نہیں کروں میں مرنے کی بات" اور آپ ہوتے کون ہے مجھے یہ بولنے والے...؟ میں آپکی غلام نہیں ہوں اور نہ ہی مجھ سے آپکا ایسا کوئی رستہ ہے جو جسکی بناء پر آپ یہ بول رہے ہیں" .... وہ بھڑک اٹھی..م میں کون ہوں....؟ بتاؤں م میں کون ہوں....؟ میں تمہارا شوہر" عائشہ سلمان شاہ کا شوہر " جو خوش قسمتی سے ابھی بنا ہوں... وہ مسکراتے ہوئے بولا...... اور عائشہ تو یہ سن کر بے ہوش ہو ہونے والی تھی...جہاں کچھ دیر پہلے آنکھوں میں آنسو تھیں وہی اب بے یقینی تھی... لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے.... میرا نکاح تو اور کہیں.... وہ میں ہی تھا.....تمہیں ہوش تھا نہیں نہ...آپ تو مجھ سے دور ہونے پر سوگ منا رہی تھی تو اپکو کیسے پتہ چلتا کہ آپکا نکاح کس سے ہو رہا ہے......اتنا سن نہ تھا عائشہ نے اُسکے سینے پر مکّوں کی بارش کر دی... سلمان نے بڑی مشکل سے مکّوں کی برسات کو روکا اور اسکا ہاتھ تھام کر اسکو اپنی طرف ایک جھٹکا دیا...جس سے وہ اُسکی باہوں میں آ سمائی.... ہاں ان بولو کیا کیا بول رہی تھی.... کِ میں تمہیں خود سے دور کر رہا ہوں.. وغیرہ وغیرہ ... ہاں تو آپ کر رہے تھے نہ مجھے اپنے آپ سے دور وہ یہ بول کر اُسکے سینے میں منہ چھپا گئی..... تم میرا عشق ہو عائشہ سلمان شاہ....میرے وجود کا حصّہ میں کیسے تمہیں خود سے دور کر سکتا ہوں.... وہ بھی اُسکے بالوں میں منہ چھپائے بولا.... یوں سلمان شاہ اور عائشہ سلمان شاہ کی زندگی ایک نئے ڈگر پر چلنے والی تھی جہاں کچھ خوشیاں تھی تو کچھ آزمائشیں ..... لیکن ابھی کسی کو نہیں پتہ تھا کہ وہ آزمائشیں کیسی ہیں...؟ اس پاک ذات کے علاوہ جو ہمیشہ اپنے بندوں پر اپنی رحمت برساتا ہے۔۔۔ بے شک وہ "الرحیم "( رحم کرنے والا ) ہیں۔۔۔
               **********************
پانچ سال بعد..........
سلمان نے کہنے کے مطابق اگلے دن ہی رخصتی کروا کر اسکو اپنے نیو فلیٹ میں لے آیا تھا" اب وہ دونوں اس گھر میں ہنسی خوشی رہ رہے تھیں" ...آج پانچ سال بعد انکے یہاں ایک ننھا سا فرشتہ آیا ..." جس کا نام اُن دونوں نے منہال رکھا...منہال گول مٹول سا خوبصورت سا نیلی آنکھوں والا بےبی...وہ بہت ہی کیوٹ سا تھا... سب ہی ہسپتال میں موجود تھیں جہانگیر اسکی بیوی جو الحمدللہ سے اُمّید سے تھی...اُنکے یہاں پر بھی جلد ہی ایک اور نیا فرشتہ آنے والا تھا" جہانگیر کی ماما اور اُسکے بابا سب ہی روم میں تھیں... اللہ کتنا پیارا ہے یہ...؟ جاہنگیر کِ بیوی شمائلہ بولی... بلکل آپ دونوں پر گیا ہے۔۔وہ منہال  کے ساتھ کھیلتی ہوئی بول رہی تھی....دیکھے ماما اب وہ جہانگیر کی ماما کو دکھاتی ہوئی اُن سے گویا ہوئی... ماشاءاللہ..!اُنہونے نے منہال کو تھامتے ہوئے بے اختیار اُنکے لبوں سے نکلا... اللہ نظر بد سے بچائے.... اچھا آشی تم آرام کرو ... اور ماما بابا آپ تینوں گھر چلے جائیں رات سے آپ سب یہیں پر ہے... میں اور سلمان ہے یہاں پر آج شام تک اشی بھی ڈسچارج ہو جائیگی۔۔۔ ہسپتال جہانگیر کا ہی تھا تو وہ انکو بتا رہا تھا... ٹھیک ہے بیٹا.... ہاں انکل جہانگیر صحیح بول رہا ہے اور  سمائلہ کِ بھی کنڈیشن ایسی نہیں ہے ... آپ جائے ہم دونوں ہیں عائشہ کے پاس .." ٹھیک ہے بیٹا..! وہ سب وہاں سے چلے گئے تھے۔ جہانگیر بھی اپنے اور دوسرے مریضوں کو دیکھنے گیا ہوا تھا ...سلمان چلتا ہوا عائشہ کے پاس آیا ..اور وہاں نزدیک ہی سٹول پر بیٹھ کر عائشہ کا ہاتھ تھام کر اُن پر بوسہ دیا... عائشہ کو ابھی سوئی تھی سلمان کے لمس کو محسوس کرتے ہوئے آنکھیں کھول دی...سلمان ... وہ فقط اتنا ہی بولی... جب سلمان نے اُسکے ماتھیں پر تھوڑا سا جھک کر بوسہ دیا اور پھر بولا.. تھينک یوں... ! میری زندگی میں آنے کے لیے .. تھینک یوں مجھے اتنا اچھا تحفہ دینے کے لیے ... تھینک یوں اس ہر چیز کے لیے جو تم نے مجھے دی...." تھینک یوں سو مچ"....! آشی..." وہ ایک جذبہ میں اسکو دیکھتا  ہوا بول رہا تھا... اُنکی فیملی مکمل ہو گئی تھی..وہ بہت خوش تھا" اتنا کی وہ اپنی خوشی بیان نہیں کر سکتا تھا..... لیکن اندر اُسکے ایک غم بھی تھا کی اسکی خوشی میں اُسکے ماں باپ اور بھائی شامل نہیں تھیں.... یہ غم اُسکی ہے خوشی سے بڑا تھا ۔۔۔۔۔۔کیا وہ اپنے فیملی سے کبھی مل پائے گا.......
           **********************
ماضی......
شاہ حویلی»»»
احسان شاہ اگلے دن ہی لندن چلے گئے تھیں" اُن کو اب یہ حویلی كاتھنے کو دوڑ رہی تھی۔۔جب سے سلمان نے حویلی چھوڑی تھی اُن کا ایک ایک پل بہت مشکل سے کٹا تھا" اس حویلی کے مکینوں نے ہنسنا چھوڑ دیا تھا" سب اپنے اپنے کمروں تک محدّد ہو گئے تھیں..."نہ کوئی کسی سے زیادہ بات کرتا اور نہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتا " رکسانہ بیگم ہی جانتی تھی کیسے ایک بیٹے کو کھونے کے بعد , دوسری طرف شوہر کے لندن جانے کے بعد اُنہونے اپنے بچوں کی پرورش کی تھی " یہ نہیں تھا کہ انہیں پیسوں کی کمی تھی"" نہیں.. اللّٰہ کا دیا اُن کے پاس سب کچھ تھا" اگر کچھ نہیں تھا اُنکے پاس وہ تھا انکے شوہر اور انکا جان سے پیارا بیٹا" کیونکہ احسان شاہ اس حویلی سے جانے کے بعد واپس لوٹ کر نہیں آئے تھیں" وہ انڈیا ضرور آتے تھیں لیکن آفس کے کام سے "( میٹنگ اٹینڈ ) کرتے اور پھر آفس سے واپس لندن چلے جاتے... احسان شاہ نے حویلی آنا چھوڑ دیا تھا... بیٹے کا کچھ اتہ پتہ نہیں تھا... وہ کہا ہے ۔۔۔؟ ایسے ہی پچیس سال گزر گئے تھیں" اور.….." آج "پچیس سال بعد "اُن کے دو بیٹوں کی شادی تھی. شادی کیا ایک چھوٹا سا فنکشن تھا...حسن شاہ ,ملک شاہ ٹونس تھیں وہ سلمان شاہ سے ایک سال چھوٹے تھیں.." جبکہ کمال شاہ اُن دونوں سے گیارہ مہینے چھوٹے تھیں".....حسن شاہ کی شادی انکی کزن نورالعین سے ہوئی تھی اور ملک شاہ کے شادی احسان شاہ کے دوست کی بیٹی صائمہ سے ہوئی تھی.. پہلے صائمہ کا ہاتھ احسان صاحب نے اپنے چھوٹے بیٹے کمال کے لیے مانگا تھا" لیکن کمال شاہ نے صائمہ سے شادی کرنے سے منع کر دیا ...تو احسان صاحب نے اپنے بڑے بیٹے ملک کے لیئے  صائمہ کا ہاتھ مانگ لیا... اور اب انکی شادی ہو رہی تھی اور کمال شاہ کا نکاح کیونکہ کمال شاہ صائمہ کے تایا کی بیٹی "مہرین"  سے محبّت کرتے تھیں" اور پھر صائمہ سے شادی نہ کرنے کی وجہ بھی یہیں تھی.... اور پھر وہ جانتے تھے اسکا بڑا بھائی صائمہ سے بے انتہاء محبّت کرتا ہے۔۔۔اس لیے اُنہونے منا کر دیا... یوں ملک شاہ اور حسن شاہ کی شادی ہو گئی" اور کمال شاہ کا نکاح ہو گیا.....
             **********************
حسن شاہ اور ملک شاہ نے  آفس جانا شروع کر دیا تھا" احسان شاہ جو کبھی کبھی ہی صحیح انڈیا اتے تھیں بیٹے کے آفس جوائن کرنے کے بعد وہ بھی آنا چھوڑ دیا تھا... وہ مستقل لندن میں ہی رہنے لگے.. کمال شاہ بھی اپنی آگے کِ اسٹڈی کمپلیٹ کرنے لندن اپنے بابا کے پاس چلے گئے تھیں... وہاں سے وہ ایک اچّھے بز نس مین بن کر پانچ سال بعد واپس  لوٹے .." اب اُنہونے بھی اپنے بڑے بھائیوں کے ساتھ مل کر آفس جانا شروع کر دیا" ...ایک دِن وہ آفس سے آنے کے بعد اپنی ماما کِ پاس گئے... السلام وعلیکم ماما کمال نے رکسانہ بیگم کے ہاتھوں پر بوسہ دیتے ہوئے سلام کی... وعلیکم السلام... بیٹا رکسانہ بیگم نے سلام کا جواب دیا...ماما مجھے آپ سے ایک بات کرنی تھی " اب وہ انکی گود میں سر دے کر لیٹ گیا تھا.. ہاں بولو بچّہ...! رکسانہ بیگم اب اپنے ہونہار بیٹے کے سر میں انگلیاں چلانے لگی تھی....کمال شاہ اپنے بڑے بھائی سلمان شاہ سے مصاحبت رکھتے تھیں.. وہیں آنکھیں وہیں ناک وہیں چہرا اگر کچھ الگ تھا تو وہ آنکھوں کا رنگ" سلمان شاہ کِ آنکھیں نیلی تھی اور کمال شاہ کِ آنکھیں تھوڑی سنہری سی تھی..... وہ بہت غور سے اپنے بیٹے کو دیکھنے لگی..... ماما ایسے کیا دیکھ رہی ہیں آپ....؟وہ اپنی ماما کا ایسے غور سے دیکھنے پر بولا...اب وہ اپنی بات بھی بھول گیا "جو وہ کرنے آیا تھا..... نہ نہیں کچھ نہیں بیٹا...؟رکسانہ بیگم آنکھوں کی نمی کو چھپاتے بولی.... ماما بتائے کیا بات ہے..اس نے بہت پیار سے اپنی ماما کا ہاتھ تھامتے پوچھا تھا.... بیٹا سلمان کِ بہت یاد آ رہی ہیں.. نہ جانے کیسا ہوگا میرا بچّہ کس حال میں ہوگا.....؟ ہوگا بھی یا وہ اتنا بول کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی....." کمال شاہ سے اپنی ماں روتے ہوئے دیکھا نہیں جا رہا تھا...  اس نے اپنی ماما کِ آنسوں پوچھے اور بولا ماما آپ رونا بند کریں .... میرا آپ سے وعدہ ہے" آسلمان بھائی بہت جلد آپ کے پاس  ہو گے.... رکسانہ بیگم نے اپنے بیٹے کو دیکھا جو محض ابھی پچیس سال کا ہی تھا " لیکن ہوشیاری اس میں اللّٰہ نے بہت دی تھی.... وہ روتی ہوئی کمال کا ماتھے پر بوسہ دیا اور بولی... " بیٹا آپنے کیا بات کرنی تھی... لو وہ تو میں بھول ہی گیا ... ماما میں اب مہرین کی رخصتی چاہتا ہوں...ٹھیک ہے بیٹا جیسی آپکی مرضی... میں بات کرتی ہوں آپکے بابا سے ۔۔۔ایک کام کرو مجھے اپنے بابا کا نمبر ملا کر دو میں ابھی کے لیتی ہوں آپکے سامنے ہی بات... انھونے کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا.. کمال نے اپنے بابا پر فون ملایا اور رکسانہ بیگم ( اپنی ماما کِ بات کرائیں) تھی۔۔۔ جب اسکی ماما نے بات کرلی تو " وہ بےصبری سے پوچھ بیٹھا" کیا بولا بابا نے؟؟ اُسکے بےصبری کو دیکھ کر رکسانہ بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تھی...بیٹا جی اتنی بےصبری بھی اچّھی نہیں ہوتی" ماما خوشی ہی اتنی ہے کہ بےصبری تو بنتی ہیں نہ.... اور پھر مہرین تو میری محبّت ہے۔۔۔۔ شرم تو بلکل بھی نہیں آ رہی اپنی ماں کے سامنے ایسی باتیں کرتے ہوئے... وہ اپنے بیٹے کے کان پکڑتے ہوئے بولی... آں ں ں ں..... ماما کیسی شرم .... اچّھا اب سمجھ آیا آپ جیلس ہو رہی ہے ۔۔۔آپکے سامنے آپکی بہو کا اتنے پیار سے جو ذکر کر رہا ہوں میں۔۔۔اب وہ مذاق کرنے لگا تھا" میں کیوں جیلس ہونے لگی اپنی بیٹی سے...میں تو آپکو کچھ شرم دلہ رہی ہوں۔۔جو کہ آپ بھول بیٹھے ہیں۔۔, ہاہاہاہا... ماما میں بھولا نہیں بلکہ مجھ میں شرم نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں وہ یہ بول کر وہاں سے دوڑ لگا دی تھی.. اس ڈر سے کہیں پھر سے کان نہ خیچ لے.... اور رکسانہ بیگم نے اپنے اس بیٹے کو بہت سی دعائیں دی.... لیکن کوں جانتا ہے اللھ نے انکی دعاؤں پر کن کہا بھی ہے یا نہیں .. صرف اس مالک کے علاوہ جو " المجيب" ( قبول کرنے والا) ہیں۔۔۔
************************************
Assalamualaikum
Kabhi rog na lagana piyar ka epi 8
Has been published now......
Go back and read epi 8 ....
Vote+ comments & share.....plzz
Do your reviews.....


   2
1 Comments

Zakirhusain Abbas Chougule

31-Mar-2022 04:44 PM

Masha

Reply